ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتاہے

ذیابیطس دنیا میں تیزی سے عام ہوتا ہوا ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل بھی کہا جاتاہے
 آرگینائزیشن (ڈبلیو ایچ او)کے ایک جائزے کے مطابق2030میں دنیا میں بیماریوں کے باعث ہونے والی ہلاکتوں میں ذیابیطس ساتویں نمبرپر ورلڈ ھے


۔ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعدادہر گزرتے سال کے ساتھ خطرناک انداز میں بڑھتی جارہی ہے۔ذیابیطس کا مرض خون میں گلوکوز کی سطح کو متاثر کرتاہے، ذیابیطس کی مختلف اقسام       -ھیں جیسا کہ
ٹائپ ون-،ٹائپ ٹو -اور ٹائپ تھری یہ سب ذیابیطس کہلاتی ہیں۔
اس مرض سے محفوظ رہنے کیلئے ہر شخص کو اپنی خوراک کا خیال رکھنا چاہیے۔بڑھتا وزن بھی اس خطر ناک مرض میں مبتلا کر سکتاہے۔عام طور پر اس مرض میں مبتلا افراد کو میٹھا کھانے کے ساتھ ساتھ میوہ جات کھانے سے بھی منع کیا جاتاہے
۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
کیا میوہ جات کھانا ذیابیطس کی بیماری میں مبتلا افراد کے لیے خطرناک ہے․․․․․․؟
متعدد ڈاکٹرز کے مطابق اس مرض میں مبتلا افراد کو میوے جات کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے،کیونکہ یہ سوکھے ہوئے پھل ہوتے ہیں اور کیونکہ ان میں تازہ پھل کے مقابلے میں پانی کی مقدار کم ہوتی ہے ۔
تو اس وجہ سے میوے جات میں موجود غذائیت اور منرلز کی مقدار میں بھی تازہ پھل سے زیادہ فرق آجاتا ہے۔ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ غیر صحت مندانہ خوراک کے مقابلے میں سخت چھلکوں والے گری دار میوے انسانی صحت کے لئے مفید ہیں۔ان کا استعمال زیادہ کولیسٹرول اور ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بھی فائدہ مند ہے،خشک میوہ جات سے مراد صرف سخت چھلکوں والے گری دار میوے ہیں جنہیں انگریزی میںNutsکہتے ہیں۔
ان میں وہ فروٹس یا پھل شامل نہیں ہیں،جن کو خشک کرکے استعمال کیا جاتاہے،بتایا جاتاہے کہ نٹس یا بادام ،اخروٹ ،پستہ وغیرہ انسانی صحت کیلئے مفید ہیں۔
ماہرین غذائیت کا کہنا ہے کہ گری دار میوے صحت کے لئے مفید خیال کیے جاتے ہیں ۔ٹورنٹو یونیورسٹی کی محققین کی ٹیم کی ایک ریسرچ ذیابیطس بین الاقوامی شہرت کے جریدے ڈائیابیٹکس کیئر میں شائع کی گئی ہے،یہ ریسرچ ٹورنٹویونیورسٹی کے شعبہ نیوٹریشنل سائنسز نے کی تھی،اس میں کلینیکل نیوٹریشن اور رسک فیکٹر کے ماہرین بھی شامل تھے۔
سیرل کینڈل بھی ٹورنٹویونیورسٹی کے شعبہ نیوٹریشنل سائنسز کے ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔ذیابیطس ایک ایسا مرض ہے،جس کے مرض اسی پریشانی میں مبتلارہتے ہیں کہ کون سی غذائیں کھائیں اور کون سی نہیں۔ان مریضوں کا ڈائٹ چارٹ ہو یا ایکسرسائز روٹین ،احتیاط لازمی ہے
میوہ جات کا استعمال مفید یا مضر
ذیابیطس کے مریضوں کیلئے میوہ جات کے استعمال پر طبی ماہرین کی رائے مختلف نظر آتی ہے۔
طبی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے مریضوں کو ڈرائی فروٹ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سوکھے ہوئے پھل ہوتے ہیں۔ان میں تازہ پھل کے حساب سے پانی کی مقدار کم ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے میوہ جات میں موجود غذائیت اور منرلز کی مقدار میں تازہ پھل کے مقابلے میں زیادہ فرق آجاتاہے۔
دوسرا گروپ ان طبی ماہرین کا ہے،جو سخت چھلکوں والے گری دار میووں کو انسانی صحت کیلئے مفید قرار دیتے ہیں۔
کینیڈا کی ٹورنٹویونیورسٹی کے ریسرچرز کی ایک تحقیق کے مطابق خشک میوہ جات سے مراد صرف سخت چھلکوں والے گری دار میوے ہیں،جنہیں انگریزی میںNutsکہتے ہیں۔ان میں وہ پھل شامل نہیں ہیں،جن کو خشک کرکے استعمال کیا جاتاہے۔تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ سخت چھلکوں والے گری دار میووں کے باقاعدہ استعمال سے خون میں شکر کی مقدار اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا ممکن ہے
بادام
بادام ایک غذائیت سے بھر پور غذا ہے جو وٹامن،پروٹین اور منرلز سے بھرپور ہوتی ہے۔طبی ماہرین بادام کو ایک ایسا میوہ کہتے ہیں،جسے ذیابیطس کے مریض استعمال کر سکتے ہیں۔امریکن یونیورسٹی کے تحقیق کاروں کے مطابق بادام کا استعمال ذیابیطس کنٹرول کرنے اور کولیسٹرول کی سطح بر قرار رکھنے میں مفید ہے۔تحقیق کاروں کے مطابق روزانہ چھ بادام شوگر کی سطح کم کرنے میں مفید ہوتے ہیں۔
ایک تحقیق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھانے کے بعد بادام استعمال کرنے سے جسم میں گلوکوز اور انسولین کی سطح قابو میں رہتی ہے۔
اخروٹ
طبی ماہرین اخروٹ کو میگنیشیم،فائبر ،اومیگا تھری فیٹی ایسڈ اور لائنولینک ایسڈ سے بھر پور غذا تسلیم کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اخروٹ میں وٹامن ای،فولک ایسڈ،زنک اور پروٹین وغیرہ بھی شامل ہیں،جو بھوک کم کرنے کے ساتھ کم کیلیوریز کے ساتھ جسمانی توانائی بھی بڑھاتے ہیں جبکہ فائبر اور پروٹین بھوک کی خواہش ختم کرنے اور بلڈ شوگر لیول کنٹرول کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں ۔
ماہرین کے مطابق وہ افراد جو اخروٹ کا استعمال باقاعدگی سے کرتے ہیں ان میں انسولین کا لیول متوازن رہتاہے ۔
پستہ
طبی ماہرین ذیابیطس کے مریضوں کیلئے پستے کے استعمال کو بھی مفید تصور کرتے ہیں۔ان کے مطابق پستہ انسولین اور گلوکوز کی کارکردگی کو بہتر بناتاہے۔اسپین کے طبی ماہرین ایک تحقیق کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پستے کو روزانہ کی خوراک میں شامل کرنا ذیابیطس سمیت کئی امراض میں مفید ہے۔
کاجو
کاجو میں دیگر غذاؤں کے مقابلے میں کم چربی پائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ کاجو ایسے قدرتی اجزاء سے مالا مال ہوتے ہیں،جو خون میں موجود انسولین کو عضلات کے خلیوں میں جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ کاجو میں پائے جانے والے ”ایکٹوکمپاؤنڈز“ذیابیطس کو بڑھنے سے روکنے اور اس میں موجود پوٹاشیم جسم میں موجود شکر کی سطح کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتاہے۔
مونگ پھلی
برٹش جرنل آف نیوٹریشن میں شائع شدہ ایک تحقیق کے مطابق ذیابیطس ٹائپ ٹوکے مرض میں مبتلا خواتین اگر ناشتے میں پی نٹ بٹر کا استعمال شروع کر دیں تو آٹھ سے بارہ گھنٹوں میں گلوکوز کی سطح متوازن اور بھوک کی خواہش پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ناشتے میں اسے کھانے کا معمول بنانا ذیابیطس کے مریضوں کیلئے مفید ہو سکتاہے۔



ذیا بیطس ، روز بروز بڑھنے والا ایسا مرض ہے جومسلسل لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 42 کروڑ 22 لاکھ افراد اس مرض کا شکار ہیں۔ صرف پاکستان میں ہر سال ذیابیطس کے مرض کے باعث تقریباً ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد معذور ہو جاتے ہیں۔ حالیہ تحقیق کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک فرد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا ہے اور یہ تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔
یہی نہیں بلکہ ذیابیطس پاکستان میں ہلاکتوں کی آٹھویں بڑی وجہ بھی ہے اور2005 ء کے مقابلے میں اس سے متاثرہ افراد کی ہلاکتوں میں50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ماہرین صحت کے مطابق ذیابیطس کے اسباب موٹاپا، تمباکو نوشی اور ورزش نہ کرنا ہے۔ جبکہ ذیا بیطس کا مرض جسم میں انسولین کی مقدارغیر معتدل ہونے سے پیدا ہوتا ہے ۔
درحقیقت انسان جو بھی خوراک کھاتا ہے، اس خوراک کا اکثر حصہ خاص طور پر میٹھی اور نشاستہ دار اشیاء شوگر میں تبدیل ہوتی ہیں، اس شوگر کو گلوکوز کہتے ہیں، اور یہ گلوکوز جسم کو توانائی فراہم کرتا ہے۔
انسانی جسم میں معدہ سے ذرا نیچے لبلبہ (Pancrea) ہوتاہے، جو انسولین نامی ہارمون پیداکرتا ہے جو گلوکوز کی مقدار کو حدود میں رکھتا ہے، اور ساتھ ہی یہ ممکن بناتا ہے کہ ہمارے عضویات خون کے ذریعے سے گلوکوز حاصل کر سکیں، اگر ایسا نہ ہو تو پھر انسانی جسم میں شامل چربی ہی توانائی کا ذریعہ رہ جاتی ہے۔ ذیا بیطس کا مرض لاحق ہونے پر بنیادی طور پر یہ ہوتا ہے کہ لبلبہ صحیح کام نہیں کرتا اور ضروری مقدار میں انسولین خارج نہیں ہوتی، یا پھر یہ ہوتا ہے کہ خلیات انسولین کے ساتھ کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، دونوں صورتوں میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ خون میں گلوکوز کی مقدار متوازن میں نہیں رہتی جس کے نتیجے میں تمام عضویات پر برا اثر پڑتا ہے، جبکہ سب سے برا اثر خون کی شریانوں پر ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر ذیا بیطس کی دو قسمیں ہیں،اول جس میں جسم میں انسولین قطعاً نہیں بنتی، یہ بیماری کبھی بھی نمودار ہو سکتی ہے مگر عموماً بچپن سے ہی لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، اس کا علاج مستقل انسولین لیتے رہنا ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ خون میں گلوکوز کی مقدار سے آگاہ رہنا بھی ضروری ہے تاکے انسولین کی صحیح مقدار لی جاسکے۔ کچھ صورتوں میں خون میں گلوکوز کی مقدار بہت زیادہ یا بہت کم ہو سکتی ہے، لہٰذہ محتاط رہنے کی ضرورت رہتی ہے۔
دوسری قسم کی ذیا بیطس میں یہ ہوتا ہے کہ خلیات اور ٹشوز میں انسولین کے ساتھ کام کرنے والے کیمیائی اجزاء صحیح طریقے سے اپنا عمل سرانجام نہیں دے پاتے جس کے نتیجے میں وہ نظام جس کو انسولین کی آمد کے بعد کام کرنا ہوتا ہے، یہ اندازہ نہیں لگا پاتا کہ انسولین کی مقدار کتنی ہے، نتیجے میں جسم کو گلوکوز کی صحیح مقدار حاصل نہیں ہو پاتی۔ نتیجہ گلوکوز کی زیادتی یا کمی دونوں صورتوں میں نکل سکتا ہے،ذیا بیطس کی یہ قسم زیادہ عام ہے۔
ذیا بیطس کی عمومی علامات میں دھندلا نظر آنا، چکر آنا، مستقل پیاس لگنا، تیزی سے وزن گرنا، بھوک لگتے رہنا، بہت زیادہ پیشاب آنا شامل ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ان علامات کا خیال رکھا جاے، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذیا بیطس پر نظر رکھی جائے اور وقتاً فوقتاً ذیا بیطس کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ جبکہ چالیس سال سے زیادہ عمر کے خواتین و حضرات کو ذیا بیطس سے زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ذیا بیطس موروثی اثرات کی بنا ہ پر بھی ہو سکتا ہے یعنی ماں باپ یا ان کے والدین اگر ذیابیطس کے مریض رہے ہیں تو اگلی نسل میں ذیا بیطس کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ذیا بیطس کے اثرات پورے جسم پر پڑتے ہیں اور لمبے عرصے میں خاصی مشکلات پیش آ سکتی ہیں، جیسے آنکھوں اور بینائی پر اثرات، بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر اور ان کے نتیجے میں دل کی بیماریاں، کھال کی بیماریاں، پورے جسم خصوصاً ٹانگوں پر چوٹوں کا ٹھیک نہ ہونا، گردوں کی بیماریاں، اس کے علاوہ یہ رگوں اور شریانوں پر بھی اثر انداز ہو تا ہے، اور بہت سی جان لیوا بیماریوں کی وجہ بن سکتاہے۔

بظاہر ذیابیطس اور دل کے عوارض دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ذیابیطس میں مبتلا افراد کی اکثریت کئی ایک پیچیدگیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ ان پیچیدگیوں میں امراض قلب سر فہرست ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس دونوں میں مبتلا ہونے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے، معاملے کا سنگین پہلو یہ ہے کہ جب یہ دونوں بیماریاں مل جائیں تو سخت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں امراض، ایک دوسرے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرتے ہیں۔
ہائی بلڈ پریشر پر کنٹرول اس اعتبار سے اہم ہے کہ بہت سی صورتوں میں صرف احتیاط ہی سے یہ مرض کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ذیا بیطس سے بچنے کے لیے ضروری ہے، وزن کو بڑھنے نہ دینا، پوری نیند لینا، دن میں جاگنا رات میں بروقت سونا، غذا میں توازن رکھنا ، سبزیوں کے استعمال سے پروٹین کا مناسب حصول، زیادہ چکنائی اور نشاستہ سے بھری غذاوٴں سے اجتناب کرنا۔
گوشت، جمنے والی چکنائیوں، مکھن، بناسپتی گھی اور مارجرین وغیرہ کا استعمال ترک کرنا، کیونکہ ان سے کولیسٹرول کی سطح بڑھ سکتی ہے۔ بلکہ مناسب یہی ہے کہ مغزیات جیسے مونگ پھلی، زیتون کاتیل، کینولا کا تیل، چکنی یا روغنی مچھلی وغیرہ کھائے جائیں۔ اور خصوصاً روزانہ کم ازکم 30 منٹ کی ورزش کی عادت اپنائی جائے ۔ تمام معا لجین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر شوگر کا مریض ورزش کو اپنے معمول کا حصہ بنا لے تو وہ شوگر کے اثرات بد سے محفوظ رہ کر پر لطف زندگی گزار سکتا ہے کیونکہ ورزش سے اس مرض کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے ، اور ورزش بالواسطہ طور پر لبلبے کو تحریک دے کر انسولین کے افراز میں اضافہ کرتی ہے اور انسانی جسم میں انسولین لیول متوازن کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے

Newest
Previous
Next Post »

if you have any query, plz let me know ConversionConversion EmoticonEmoticon